وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ

---لڑکیوں کے دُکھ عجب ہوتے ہیں،سُکھ اُس سے عجیب ہنس رہی ہیں اور کاجل بھیگتا ہے ساتھ ساتھ پروین شاکر---

,

.

Saturday 25 May 2013

سانس کی ورزشوں سے صحت و توانائی

       سانس کی ورزشوں سے صحت و توانائی  

      


یقیناً آپ کی بھی خواہش ہے کہ آپ کبھی بیمار نہ پڑیں۔ بخار‘ بدہضمی‘ قبض‘ خون اور پھیپھڑوں کے امراض‘ تبخیر معدہ‘ کھانسی و دمہ‘ درد سر وغیرہ جیسے امراض آپ کے قریب نہ پھٹکیں۔ حافظہ تیز اور دماغ ترو تازہ رہے۔ عمر میں دس پندرہ سال کا اضافہ ہوجائے۔ یہ سب ممکن ہے اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس پر کوئی پیسہ خرچ ہوگا‘ نہ کوئی سخت اور تکلیف دہ قسم کی ورزشیں کرنی پڑیں گی۔ بس ان آسان سی ورزشوں کے لیے روزانہ صبح دس پندرہ منٹ نکالنے ہوں گے۔
یہ یوگا کی ورزشیں ہے جسے ہر جوان‘ بوڑھا اور بچہ ہر موسم میں کرسکتا ہے۔ یہ خواتین کے لیے بھی اتنی ہی مفید ثابت ہوتی ہے۔ اسے ’’پرانا یام‘‘ کہتے ہیں جس کے معنی ہیں سانس اور دوسری حیاتیاتی قوتوں کو کنٹرول کرنا۔
اس ورزش میں آپ سانس کو مکمل طور پر خارج کرتے ہیں۔ پھیپھڑے خالی کرکے آہستہ تازہ ہوا اپنے پھیپھڑوں میں بھرتے ہیں اور جب ان میں مزید سانس کی گنجائش باقی نہیں رہتی تو جس حد تک آسانی سے اپنا سانس روک سکتے ہیں اسے روک کر دھیرے دھیرے ایک رفتار سے سانس مکمل طور پر خارج کردیتے ہیں۔ سانس لینے‘ روکنے اور خارج کرنے کا یہی عمل پرانا یام کہلاتا ہے۔ اس ورزش کے بعد آپ اپنے اندر دماغی چستی اور توانائی محسوس کرتے ہیں۔ اس سے آپ کی سوچ درست ہوکر مایوسی اور پراگندہ ذہنی دور ہوتی محسوس ہوگی اور جب آپ اس کے مشاق ہوجائیں گے تو اپنے جسم میں آپ کو برقی رو سی دوڑتی محسوس ہونے لگے گی۔ کسی ٹانک کے استعمال کے بغیر ہر کمزور خود کو دھیرے دھیرے توانا محسوس کرنے لگے گا۔
اس حیرت انگیز ورزش کے مختلف طریقے ہیں۔ اس ورزش کے لیے بہترین جگہ دریا یا ندی‘ نہر‘ جھیل اور سمندر کا کنارا‘ کھلا باغ‘ کھیت یا میدان ہے۔ اگر ان جگہوں تک رسائی ممکن نہ ہو تو مکان کی چھت یا پھر کوئی ہوادار کمرہ بھی مناسب رہتا ہے۔یوں تو یہ ورزش دن میں کسی وقت بھی کی جاسکتی ہے‘ لیکن بہترین فوائد حاصل کرنے کے لیے اسے سورج نکلنے سے پہلے کرنا چاہیے‘ کیونکہ اس وقت ہوا میں آکسیجن خوب ہوتی ہے۔ ورزش کرتے وقت اعصاب میں کسی قسم کا تناؤ اور کھنچاؤ نہیں ہونا چاہیے۔ خود کو ذہنی الجھاؤ فکر و تشویش سے آزاد کرلیجئے۔ اس طرح آپ ورزش کرکے اور بھی پُرسکون ہوجائیں گے اور ذہنی یکسوئی بڑھ جائے گی۔
پہلا طریقہ: زمین پر صاف چادر‘ دری‘ چٹائی یا کمبل بچھا کر بیٹھ جائیے۔ ٹانگیں سامنے پھیلا دیجئے۔ اب دائیں ٹانگ کو ٹخنے سے پکڑ کر گھٹنےسے موڑ کر بائیں ران پر رکھ دیجئے۔ اب اس طرح بائیں ٹانگ موڑ کر دائیں ران پر رکھ لیجئے۔ ٹانگیں ٹھیک ٹھیک رانوں پر آنی چاہئیں۔ ابتدا میں یہ مشکل لگے گا لیکن رفتہ رفتہ عادت ہوجائے گی۔ بیٹھنے کا یہ انداز آلتی پالتی مارنا یا فٹ لاک کہلاتا ہے۔ اس حالت میں کمر اور گردن بالکل سیدھی رکھیے۔ ہاتھ گھٹنوں پر رکھ لیجئے۔ اس طرح بیٹھنا خود بہت مفید ورزش ہے۔ اس سے قوت ہضم بڑھتی اور بھوک خوب لگتی ہے۔ اس سے گٹھیا کی تکلیف بھی جوڑوں میں دوران خون کے بڑھنے سے ٹھیک ہونے لگتی ہے۔ بشرطیکہ ورم زیادہ نہ ہو۔ اس سے رانوں اور پیروں کے عضلات مضبوط ہوتے ہیں۔ابتدا میں اسی انداز میں بیٹھ کر 5 منٹ تک سانس لینے اور خارج کرنے کا عمل کرتے رہیں۔ پانچ روز بعد روزانہ ایک ایک دو دو منٹ کا اضافہ کرتے جائیے۔
اب دائیں ہاتھ کے انگوٹھے سے دائیں طرف کا نتھنا بند کرلیجئے اور بائیں نتھنے سے آہستہ آہستہ تازہ ہوا اندر کھنچئے یہاں تک کہ پھیپھڑے پوری طرح بھر جائیں۔ اس ہوا کو زیادہ سے زیادہ دیر تک پھیپھڑوںمیں روکنے کی کوشش کیجئے۔ سانس مزید روکنا مشکل ہو تو بہت آہستہ آہستہ داہنے نتھنے سے اسے خارج کردیجئے۔ دوسری بار بایاں نتھنا بند کیجئے اور داہنےنتھنے سے ہی پہلا عمل دہرائیے۔ ہوا پھیپھڑوں میں بھرجائے تو بائیں نتھنے سے خارج کردیجئے۔ اس طرح ایک چکر پورا ہوگا۔ یہ عمل پہلے دن پانچ بار کریں اور پھر اسے بڑھاتے ہوئے بیس مرتبہ تک لے جائیں۔
اس عمل کے دوران ذہن میں یہ تصور بٹھائیے کہ آپ کے اندر توازن فکر‘ رحم و دیانت‘ محبت وشرافت‘ خوشی‘ عفو و درگزر اور صداقت جیسی پاکیزہ صفات پیدا ہورہی ہیں اور حرص‘ جلن‘ ہوس اور لالچ جیسی شیطانی خصوصیات مٹ رہی ہیں اگر یہ ممکن نہ ہو تو دل میں اسم ذات اللہ کا ورد کرتے رہیں۔
سانس اندر کھنچنے اور روکنے اور خارج کرنے کی مدت کا تناسب یہ رکھیے کہ اگر آپ چار سیکنڈ میں سانس اندر کھینچتے ہیں تو اسے سولہ سیکنڈ روکیے اور آٹھ سیکنڈ میں خارج کیجئے اور پھر آہستہ آہستہ اس کو بڑھاتے جائیے۔ یہ ورزش چلتے پھرتے کھڑے اور لیٹے ہوئے بھی کی جاسکتی ہے۔
اس ورزش سے قوتِ ہضم تیز ہوتی ہے‘ بلغم زائل ہوتا اور خون صاف ہوکر چہرے پر رونق آتی ہے۔ نیز آلتی پالتی مار کر بیٹھنے کے فائدے بھی حاصل ہوتے ہیں۔
دوسرا طریقہ: یہ پہلے طریقے کی بہ نسبت زیادہ اہم اور فائدہ مند ہے تاہم بہتر ہے کہ پہلے طریقے کا عادی ہونے کے بعد یہ طریقہ اپنایا جائے۔ پہلے بیان کیے گئے طریقے کے مطابق آلتی پالتی مار کر بیٹھیے۔ دونوں نتھنوں سے لمبا سانس لیجئے۔ سانس اتنا آہستہ لیجئے کہ آواز بالکل پیدا نہ ہو۔ پھیپھڑے ہوا سے پوری طرح بھرجائیں تو سانس کو زیادہ سے زیادہ دیر تک روکنے کی کوشش کیجئے اور پھر منہ یعنی ہونٹوں کو سیٹی بجانے کے انداز میں لاکر یعنی ہونٹ سکیڑ کر سانس خارج کیجئے۔
سانس اندر کھینچنے اور خارج کرنے میں کم از کم پانچ سیکنڈ لگنے چاہئیں۔ شروع میں آدھا منٹ سانس کو روکنے کی کوشش کیجئے اور پھر اسے بتدریج پانچ منٹ تک لے جائیے۔ یہ ورزش بھی چلتے پھرتے اور لیٹے لیٹے کی جاسکتی ہے۔ اس ورزش سے سر کی خشکی‘ دماغ کی گرمی اور دھندلاہٹ دور ہوجاتی ہے‘ قوت ہضم بڑھتی ہے‘ گلے سے بلغم اور رطوبت جیسے مادے خارج ہوتے ہیں۔ خون صاف ہوجاتا ہے‘ سانس کے پھولنے اور دمہ جیسے موذی امراض قریب نہیں پھٹکتے۔ اس ورزش کا عادی بلغمی اور اعصابی امراض کھانسی‘ بخار‘ تلی بڑھ جانے‘ ضعف معدہ اور پیچش وغیرہ جیسی شکایات سے محفوظ رہتا ہے۔
تیسرا طریقہ: زبان کو منہ سے باہر نکال کر لمبائی کے رخ دہرا کرکے ٹیوب سی بنائیے‘ اب ’’سی‘‘ کی آواز نکالتے ہوئے ہوا کو اندر کھینچئے۔ پھر اسے مندرجہ بالا طریقوں کے مطابق روکیے اور ناک کے راستے خارج کردیجئے۔ یہ ورزش خون صاف کرتی ہے‘ بڑھی ہوئی بھو ک کم کرتی ہے اور پیاس بجھاتی ہے۔ اس کے علاوہ بخار ‘ مختلف بیماریوں اور پیٹ کی خرابیوں سے بچاؤ کیلئے اکسیر ہے۔ موسم گرما میں یہ ورزش بے حد مفید ثابت ہوتی ہے اور طبیعت کی گراوٹ دور کرکے تازگی پیدا کرتی ہے۔




بڑی ترقی کا راز


       بڑی ترقی کا راز        


علم النفس کے ماہرین نے انسانی سوچ کی دو قسمیں کی ہیں کنورجنٹ تھنکنگ اور ڈائورجنت تھنکنگ۔ کنورجنٹ تھکنگ یہ ہے کہ آدمی کی سوچ ایک ہی نقطہ کی طرف مائل رہے۔ ایک چیز اس کے فکر کی گرفت میں آئے مگر دوسری چیز اس کے فکر کی گرفت میں نہ آسکے۔ یہ غیرتخلیقی فکر ہے۔ڈائورجنٹ تھنکنگ کا معاملہ اس سے مختلف ہے۔ ڈائورجنٹ تھنکنگ یہ ہے کہ آدمی کی سوچ ایک رخ سے دوسرے رخ کی طرف مڑجائے وہ ایک چیز کو دیکھے اور اس کے بعد اس کا ذہن دوسری چیز کی طرف منتقل ہوجائے۔ اسی کا دوسرا نام تخلیقی چیز ہے۔ایک شخص کسی بستی میں جوتا خریدنے گیا۔ وہاں کی آبادی کافی بڑی تھی مگر وہاں جوتے کی دکان موجود نہ تھی اب ایک شخص وہ ہے جو اس تجربہ سے صرف یہ جانے کہ مذکورہ بستی میں جوتے کی دکان نہیں ہے یہ وہ شخص ہے جس کے اندر صرف کنورجنٹ تھنکنگ ہے۔ دوسرا شخص وہ ہے جس پر یہ تجربہ گزرا تو اس کا ذہن اس طرف منتقل ہوگیا کہ اس بستی میں جوتے کے گاہک ہیں مگر جوتے کی دکان نہیں‘ اس لیے اگر یہاں جوتے کی دکان کھولی جائے تو وہ بہت کامیاب ہوگی۔ اس نے فوراً وہاں جوتے کی ایک دکان کھول دی اور پھر زبردست نفع کمایا۔یہ دوسرا شخص وہ ہے جس کے اندر ڈائورجنٹ تھکنگ ہے۔ اس نے جوتے کی دکان میں ایک نئے کاروبار کی تصویر دیکھ لی۔ اس نے دکان کے نہ ہونے میں دکان کا ہونا دیکھ لیا۔ڈائورجنٹ تھنکنگ کی صفت ان لوگوں میں ہوتی ہے جن کے اندر تخلیقیت کی صلاحیت ہو۔ یہی تخلیقیت تمام بڑی ترقیوں کی سب سے اہم شرط ہے۔ انہی لوگوں نے بڑی بڑی سائنسی دریافتیں کی ہیں جن کے اندر تخلیقی ذہن ہو۔ انہی لوگوں نے بڑے بڑے سائنسی کارنامے انجام دیئے ہیں جو تخلیقی ذہن کے مالک ہوں۔ وہی لوگ اعلیٰ تجارتی ترقیاں حاصل کرتے ہیں جوتخلیقی فکر کا ثبوت دے سکیں۔اس دنیا میں پانے والا وہ ہے جس نے کھونے میں پانے کا راز دریافت کرلیا ہو۔

لسی سے معدے کے امراض کا کامیاب علاج

  لسی سے معدے کے امراض کا کامیاب علاج   



لسی میں پنجاب اور بہت سے ممالک کےلوگوں کی جسمانی صحت کا راز پنہاں ہے۔ جو لوگ لسی پینے کے عادی ہوتے ہیں انہیں معدے کی بیماریاں لاحق نہیں ہوتی۔ ابھی چند ماہ قبل ایران میں دو گروپ 90 اور 140 کی تعداد میں تشکیل دئیے گئے اور ان لوگوں کو جن کی عمریں 35 سے 65 برس تک تھیں 90 دن تک 500 ملی گرام وٹامن ڈی اور 250 ملی لیٹر دوغ (دہی کی لسی) اور 250 ملی گرام کیلشیم دیا گیا۔ ان کے ٹیسٹ سے ثابت ہوا کہ ان کو ٹائب ٹو کی ذیابیطس میں کافی حد تک افاقہ ہوا۔ اسی طرح تُرکی میں دہی اور لسی کا استعمال بہت زیادہ ہے تقریباً ہر کھانے کے بعد دہی یا لسی جسے ترکی میں بوگڑٹ اور آئران کہتے ہیں ضرور پی جاتی ہے۔ ترکی کے لوگوں کی صحت اور حسن کا ثانی کہیں نہیں ہے ترکی ایک ڈش یوگرٹ کباب بہت مقبول عام ہے۔
یورپ اور امریکہ میں بھی دہی کی جانب عوام الناس کا رجحان دن بدن بڑھتا جارہا ہے۔ امریکہ میں تو آئس کریم پارلرز کی طرز پر یوگرٹ پارلرز بہت مقبول ہورہےہیں۔ ہمارے ایک دوست جو بہت امیرکبیر تھے ان کا ہاضمہ بگڑ گیا اور کئی سال تک معدے کے معالجین کے علاج سے بھی ٹھیک نہیں ہوا تو کسی نے مشورہ دیا کہ آپ لندن جاکر کسی معدے کے امراض کےماہر سے مشورہ کریں۔ وہ صاحب لندن تشریف لے گئے اور وہاں معدے کے اعلیٰ سے اعلیٰ ڈاکٹر سے علاج کروایا مگر صحت یابی نہیں ہوئی۔ لندن کے قیام کے دوران انہیں کسی دوست نے صلاح دی کہ جرمنی میں ایک ماہر نظام ہضم ڈاکٹر ہے اسے بھی ایک بار آزمالیں۔

چنانچہ وہ حضرت جرمنی پہنچ گئے جس شہر میں وہ جرمن ماہر رہتا تھا وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ ڈاکٹر صاحب بہت ضعیف ہوچکےہیں اور انہوں نے پریکٹس چھوڑ دی ہے مگر گاہے بگاہے اکا دُکا کیس لے لیتے ہیں۔ ان صاحب نے ڈاکٹر صاحب کو بذریعہ استدعا کی۔ آخر کار ڈاکٹر صاحب نے انہیں بلالیا۔ موصوف جب ڈاکٹر صاحب ک گھر پہنچے تو انہیں اپنا احوال سنایا اور بیان کرنے کے بعد کہا کہ میں خاص طور پر پاکستان سے بغرض علاج یہاں آیا ہوں۔ یہ بات سنتے ہی جرمن ڈاکٹر جو پہلے انتہائی خاموش اور توجہ سے مریض کا احوال سن رہا تھا یکایک آگ بولہ ہوگیا اور غصے سے کانپنے لگا اور موصوف سے کہا کہ یہاں سےفوراً نکل جاؤ۔ مریض صاحب کو جرمن ڈاکٹر کے اس روئیے سے کافی حیرانی ہوئی۔آخر کار کافی منت سماجت کے بعد جرمن ڈاکٹر نے بتایا کہ بہت سال پہلے میں ہندوستان اور پاکستان گیا تھا اور وہاں سے ہاضمے کی بیماریوں کا علاج وہاں کے اطبا اور ویدوں سے سیکھ کرآیا تھا لگتا ہے آپ نے وہاں کسی اچھے طبیب سے علاج نہیں کرایااور اتنی دور چلے آئے۔ آپ اپنے ملک واپس جائیں اور وہیں کسی ماہر طب کو دکھائیں۔ 
مریض صاحب نے ڈاکٹر سے کہا کہ اب میں جرمنی آہی گیا ہوں اور آپ سے بعد مشکل ملاقات بھی ہوگئی ہے تو آپ میرا علاج بھی تجویز فرمادیجئے۔ آخر کار ڈاکٹر مان گیا اور اس نے کہا کہ کل دس بجے صبح آنا۔ اگلے دن جب مریض جرمن ڈاکٹر کے گھر پہنچے تو ڈاکٹر نے انہیں ایک صراحی میں سفید رنگ کی مائع گلاس میں ڈال کردی اور اس میں دو چھوٹی شیشیوں میں سے پاؤڈر سیاہ اور سفید رنگ کا ملایا اور کہا یہ تمہارا علاج ہے۔ یہ لسی ہے اور باریک شے کالی مرچ اور نمک ہے۔ تم لسی میں کالی مرچ اور نمک ملا کر پیا کرو انشاء اللہ صحت یاب ہوجاؤ گے۔ 
موصوف واپس پاکستان آگئے اور دو تین ماہ کے مستقل لسی بمعہ نمک اور کالی مرچ کے استعمال سے صحت یاب ہوگئی۔ پس لسی ہاضمے کے امراض کے لیے سو دواؤں کی ایک دوا ہے۔ لیکن اس میں کالی مرچ اور نمک ضرور ملا ہونا چاہیے یعنی کالی مرچ اور نمک اس کے لازمی جزو ہیں۔ میٹھی اور برف والی لسی میں وہ فوائد نہیں جو نمکین لسی اور کالی مرچ کی وجہ سے حاصل ہوئے ہیں۔ برف ویسے بھی دانتوں اور معدے کے لیے مضر ہے۔ بچوں اور نوعمر لڑکے لڑکیوں کو چائے ہرگز نہیں پینی چاہیے کیونکہ چائے ان کی طبعی نشوونما کو روک دیتی ہے۔ آج کل مغرب میں بھی کافی اور چائے کی بجائے دودھ اور دہی کی ترغیب دی جارہی ہے۔ روز مرہ کے کھانوں میں بھی دہی کا استعمال انتہائی سود مند ثابت ہونے کے علاوہ ذائقے کو بھی بہتر بناتا ہے۔ اگر ہر ہانڈی میں ایک چٹکی کلونجی اور تھوڑی سی دہی ڈال دی جائے تو اس کے بے انتہا فوائد حاصل ہونگے۔



source---ubqari

 
Design by Free WordPress Themes | Bloggerized by Lasantha - Premium Blogger Themes | Hot Sonakshi Sinha, Car Price in India